کچھ اپنے بارے میں

 (‘‘از: سید وحید القادری عارفؔ  (ماخوذ از ’’نسیمِ گلستاں

شاعری جذباتِ دلی کی آیئنہ دار ہوتی ہے۔ دلی کیفیات جب اپنے عروج پر ہوتی ہیں تو انہیں قدرت سے زبان مل جاتی ہے اور وہ والہانہ اشعار کے سانچے میں ڈھل کر صفحہ ء قرطاس پر ثبت ہوجاتی ہیں۔ شاعری کی نہیں جاتی ہوجاتی ہے۔ جذباتِ دلی کا بے ساختگی سے اظہار ہوجانا ہی شاعری ہے۔ اچھے شعر کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ سننے والوں کو یاد رہ جاتا ہے۔یہ اور ایسے ہی کئی کلمات کی گونج میرے کانوں میں شائد ہوش سنبھالنے کے بعد ہی سے ہونے لگی تھی۔ پھر حضرت والدم علیہ الرحمہ کو اکژو بیشتر گنگناتے‘ اشعار موزوں فرماتے ‘ اور محافلِ شعر و سخن میں ترنم ریز ہوتے سنتا رہتا جس سے میرے وجود میں بھی لطافتِ شعری اثر کرنے لگی۔ دلچسپی بڑھی تو اپنے بزرگوں کا کلام پڑھنا شروع کیا جن میں میرے والدِ ماجد حضرت ابو الفضل سید محمود قادری محمودؔ ؒ کے علاوہ میرے جدِ امجد حضرت مفتی سید عبد الرشید قادری اخترؔ ؒ ‘ میرے جدِ مادری حضرت سید وحید القادری الموسوی عارفؔ ؒ ‘ اور حضرت مفتی میر اعظم علی شائقؔ ؒ کا کلام شامل تھا۔ ہمارے خاندان میں منعقد ہونے والی نعت و منقبت کی محفلیں اس پر سونے پر سہاگہ کا کام کرنے لگیں اور رفتہ رفتہ اس شعری لگاؤ نے سخن گوئی کی جانب مائل کردیا۔ ۱۹۷۰ ؁ ؁ء میں جب میرے نانا حضرت سید وحید القادری عارفؔ ؒ کے سالانہ عرس کا دعوت نامہ آیا تو اس موقع پرمنعقد شدنی طرحی منقبتی مشاعرہ میں میں نے بھی منقبت سنانے کی ٹھان لی اور طرحی منقبت لکھ کر حضرت والدمؒ کو سنائی ۔ والد صاحبؒ مسکرا اٹھے اور پھر قلم لے کر اس منقبت پر اصلاح فرمائی۔ یہ پہلا مشاعرہ تھا جس میں میں نے اپنا کلام سنایا۔ حضرت والدمؒ کے علاوہ میرے تمام بزرگوں خاص طور پرحضرت عمِ مکرم پروفیسر سید عبد الرزاق قادری الموسوی جعفرؔ ؒ نے بڑی ہمت افزائی کی اور اپنے پاس منعقد ہونے والے سالانہ مشاعرہء جشنِ غوثیہ میں بھی کلام سنانے کی تاکید فرمائی۔ پھر کرنول میں حضرت سید عبد اللطیف قادری لاابالی علیہ الرحمہ کے عرس کے موقع پر منعقد ہونے والے طرحی مشاعرے میں شرکت لازمی ہوگئی ۔اور مشاعروں میں شرکت کا یہ سلسلہ چل پڑا۔ پہلے حضرت والدم ذو الفضلِ و الکرمؒ کی معیت میں اور بعد میں انفرادی طور پر شہر کے اکثر نعتیہ و منقبتی مشاعروں میں شرکت ہونے لگی۔ ان میں قابلِ ذکر درگاہِ حضرت موسیٰ قادریؒ میں منعقدہ یادِ حضرتِ عارفؒ کا سالانہ طرحی منقبتی مشاعرہ ‘ جشنِ غوثیہ کا سالانہ منقبتی مشاعرہ جس کااہتمام احاطہء حضرت موسیٰ قادریؒ میں ہوتا ‘ یادِ فاضلؒ کا سالانہ نعتیہ مشاعرہ جسے مولانا جلال الدین حسامی کاملؔ حسامیہ منزل پنجہ شاہ میں منعقد کرتے تھے‘ بزمِ کاملؔ شطاریؒ کا نعتیہ مشاعرہ جوخانقاہِ شطاریہ دبیر پورہ میں ہو تا ( یادِ کامل ؔ کا پہلا مشاعرہ حضرت والدمؒ کی صدارت میں ہوا تھا جو تمام رات چلتا رہا تھا) ‘ پیرزادہ نصیر الدین بسملؔ کے مکان واقع چندولعل بارہ دری میں منعقدہ سالانہ نعتیہ مشاعرہ ‘ خانقاہِ نورانی قاضی پورہ میں منعقدہ نعتیہ و منقبتی مشاعرے‘ انجمنِ قادریہ کے زیرِ اہتمام منعقدہ نعتیہ مشاعرے غرضکہ شعر و سخن کی محفلوں کا گویا ایک لامتناہی سلسلہ تھا کہ جس کے باعث میرے ذوقِ سخن کی نمو ہوئی‘ سخن فہمی نے جلا پائی اور سخن طرازی میں نکھار آیا۔


پھر میرے مسلسل اصرار پر حضرت والدم علیہ الرحمہ نے ہمارے مکان دیوڑھی حضرت مولوی محمودؒ میں ماہِ ربیع الاول‘ ربیع الثانی اور محرم میں ہونے والی سالانہ محافل میں نعتیہ و منقبتی مشاعروں کا انعقاد شروع کردیا (جس کا سلسلہ ۱۹۸۴ ؁ ء میں میرے سعودی عرب آنے تک چلتا رہا)۔ ان مشاعروں میں اساتذہء سخن مثلا مولانا سید شیخین احمد شطاری کاملؔ ؒ ‘ مولانا ابو الزاہد سید یحییٰ حسینی قدرؔ عریضیؒ ‘ مفسرِ قرآن مولانا سید معز الدین قادری الملتانی معزؔ ؒ ‘ مولانا سید سلطان محی الدین قادری سیفؔ حمویؒ ‘ مرزا شکور بیگ صاحب میرزاؔ ‘ ملک الشعراء اوجؔ یعقوبی وغیرہم کے سامنے کلام سنانے اور ان کا اور دیگر شعراء کا کلام سننے کا موقع ملا۔


اسی دوران میرے رشتہ کے چچا حضرت ابو الحسنات سید ولی اللہ قادری ولیؔ ؒ بھی دبیر پورہ سے ہمارے پڑوس میں منتقل ہو گئے اور میں ان کی خدمت میں بپابندی حاضر ہونے لگا۔ یہ بھی بڑے باکمال شاعر تھے۔چچاحضرت علیہ الرحمہ کی مجھ پر بڑی عنایت تھی۔ ان سے جہاں میں نے بہت کچھ سیکھا وہیں مجھے اس بات کا بھی فخر ہے کہ وہ اکثر اپنا کلام مجھے سناتے اور میرے ٹوٹے پھوٹے اشعار پر اپنی رائے بھی دیتے تھے۔

جب محافلِ سخن میں شرکت بڑھتی گئی تو شہرِ حیدرآباد میں منعقد ہونے والے مختلف جلسہ ہائے سیرت النبیؐ و فیضانِ اولیاء میں نعت و منقبت سنانے کی دعوتیں آنے لگیں۔ ان جلسوں میں خاص طور پر میں جلسہء استقبالِ رمضان کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کا اہتمام محفوظ بالقرآن حکیم سید عزیز حسینی صاحب کیا کرتے تھے۔ یہ رشتہ میں میرے چچازاد بہنوئی ہوتے تھے۔ انہوں نے میرا اس جلسہ میں شرکت اور کلام سنانا لازم کردیا تھا۔رمضان کے تینوں دہوں میں میں تراویح بپابندی عزیز بھائی کی اقتدا ء میں ادا کرتا تھا۔ عزیز بھائی ہر دہے کے اختتام پر جلسہء ختمِ قرآن کا بھی اہتمام فرماتے تھے اور اس جلسہ میں بھی میری نعت ضرور شامل ہوتی۔ 


عمر
 کے ساتھ ساتھ شاعری کا ذوق بھی بڑھتا گیا۔اساتذہ کے کلام پڑھنے اور سننے لگا۔ میں غالبؔ ‘ جگرؔ مرادآبادی‘ فانیؔ بدایونی‘ علامہ اقبالؔ ‘ اختر شیرانی‘ آنند نارائن ملاؔ ‘ جگن ناتھ آزادؔ ‘ فراقؔ گورکھپوری ‘ فیض احمد فیضؔ وغیرہم کے مجموعہء کلام سے منتخب غزلیں حضرت والدم علیہ الرحمہ کو سناتا اور ان کے تاثرات بغور سنتا۔ اسطرح لطفِ سخن فہمی دوبالا ہوجاتا ۔اکژ یوں ہوتا کہ والد صاحبؒ کی طبیعت موزوں ہوجاتی اور وہ اسی زمین میں اشعار کہتے اور مجھے سناتے ۔ پھر مجھ سے ترنم سے اپنا کلام سنتے۔بعض اوقات کچھ اشعارمیں بھی لکھتا اور حضرت والدمؒ کو سناتا اور وہ اس پر اپنی صلاح دیتے۔ اس وقت میرے ماموں زاد بھائی مولانا سید غوث محی الدین قادری اعظمؔ حضرت والدمؒ سے درس لینے روزانہ ہمارے گھر آتے تھے۔ماشا ء اللہ یہ سخن فہم بھی ہیں اور سخن گو بھی۔ میری طرح یہ بھی اپنے اشعار پر حضرت والدم علیہ الرحمہ سے صلاح لیتے تھے۔ ہماری طبیعت بہت ملتی ہے۔ چنانچہ یہ اپنا کلام مجھے سناتے اور میں اپنا کلام انہیں سناتا۔یہ اکثر حضرت والدم علیہ الرحمہ کی موجودگی میں ہوتا اوروہ ساتھ ساتھ اپنی رائے بھی دیتے جاتے۔ 


نعت و منقبت کے بعد طبیعت میں غزل گوئی کا رجحان ہوا۔ حضرت والدم علیہ الرحمہ نے پھر ہمت افزائی فرمائی۔ ۱۹۷۶ ؁ ء میں یومِ قلی قطب شاہ کے سالانہ مشاعرہ میں میں نے پہلی بار غزل پڑھی۔ یہ مشاعرہ ’ایوانِ اردو‘ میں جناب نریندر لوتھر صاحب (اسپیشیل آفیسر بلدیہ) کی صدارت اور عمِ مکرم ڈاکٹر غیاثؔ صدیقیؒ کی معتمدی میں منعقد ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میری غزل پر بہت داد ملی تھی اورمیں جب غزل سنا چکا تو صدرِ مشاعرہ نے مجھے اپنے پاس بلا کرتعریف کی اور ہمت افزائی فرمائی۔ پھر کیپٹن عباسؔ عابدی صاحب نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اورغزل کے ساتھ نظم لکھنے کی صلاح دی (جس پر بہت کم عمل ہوا)۔ اس مشاعرہ کے بعد میں ڈاکٹر غیاثؔ صدیقی صاحب سے بہت قریب ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب رشتہ میں میرے والد کے چچازاد بھائی تھے۔ ہر دوسرے یاتیسرے دن میں غیاث چچا کے گھر چلا جاتا۔ وہ اپنا کلام سناتے اور میرا کلام سنتے۔ ساتھ میں فنِ سخن گوئی پر مجھے نئی نئی ترکیبات سکھاتے۔ یہ جدید لب و لہجہ کے شاعر تھے اورمیں نے پہلی بار ادبِ نو انہی سے سیکھا تھا۔


 حضرت والدم کی صدارت میں منعقدہ بزمِ نارائن داس کا طرحی مشاعرہ بھی میری زندگی کا یادگار مشاعرہ تھا۔ یہ کلامندر حیدر گوڑہ میں ۱۹۷۸ء میں ہوا تھا اور اس میں کم و بیش ۵۰ اساتذہ نے کلام سنایا تھا۔وہاں بعض غیر مسلم شعراء کا کلام سننے کو ملا جن میں دنکر راؤ دیشمکھ دنکر‘ کنول پرشاد کنولؔ ‘ ؔ اور ٹھاکر بجرنگ سنگھ فقیرؔ بھی شامل تھے۔ یہ سارے شعراء نعت و منقبت کے نذرانے بھی عرض کیا کرتے 
تھے۔ اس مشاعرے کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ اس میں روایات کا بھی پاس رکھا گیا تھا۔ ہال میں بہر جانب گاؤ تکیے لگائے گئے تھے جن کے سامنے اگالدان رکھے تھے۔ پان کی گلوریاں طشت میں الگ سے رکھی تھیں۔ شمعِ محفل باضابطہ موجود تھی اور جل رہی تھی۔ جس کسی شاعر کی باری آتی شمعِ محفل اس کے سامنے رکھ دی جاتی تھی۔میں نے حیدرآباد کے کئی مشاعروں میں شرکت کی اوراپنا کلام سنایا ہے لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ ایسے روایتی مشاعرے کہیں اور بھی ہوتے ہوں ۔ ہاں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایسے کسی اور مشاعرے میں شرکت کا مجھے موقع نہیں ملا۔

نعت‘ منقبت‘ غزل ‘ نظم کے علاوہ حضرت والدمؒ کی خدمت میں میں نے تاریخ گوئی کا فن بھی سیکھا تھا۔ والد صاحبؒ کا شمار حیدرآباد کے منفرد اور مایہ ناز تاریخ گو شعراء میں ہوتا تھا۔ میں نے بھی چند تاریخی نظمیں اور رباعیات لکھی ہیں۔

حیدرآباد سے ۱۹۸۴ء میں جدہ منتقل ہوگیا اور شعر و سخن کی محفلوں میں شرکت کا یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ البتہ شعر گوئی مزاج کا جزو لاینفک ہے سواس کا سلسلہ چلتا رہا۔ اب جو اشعار ہوتے وہ والد صاحبؒ کو خط میں لکھ بھیجتا اور وہ جوابی خط میں اپنی صلاح سے نوازتے۔ چھٹی پر جاتا تو اپنے مختصر قیام کے دوران اگر کوئی مشاعرے کی محفل منعقد ہوتی تو  شرکت کرلیتا۔ ہاں غزلیات وقتا فوقتا پاکستان اور سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبارات و رسائل میں طبع ہوتی رہیں۔   ۲۰۰۰ ؁ء میں حضرت والدم اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے ۔میں شعر اب بھی کہتا ہوں لیکن اب شعر گوئی میں مزہ نہیں رہا۔ 

اس مجموعہ کی ترتیب کی جانب توجہ دلانے اور مسلسل اصرار کرنے کا سہرا میری شریکِ حیات کے سر ہے۔ اس کے لئے میں ان کا مشکور ہوں۔  اگر ان کا اصرار نہ ہوتا تو شائد میں اپنے اشعار کو جو پراگندہ حالت میں تھے ایسی ترتیب نہ دے پاتا۔

  آخر میں امید کرتا ہوں کہ میری یہ کاو ش قارئین کے معیار پر پوری اترے گی اور انکی دلچسپی اور قبولیت کا باعث ہوگی۔ 
سید وحید القادری عارفؔ